اور یہی اس کی کُل کا ئنات تھی۔ اس کے پُرکھوں نے جو قرض لیا تھا، اس کی زندگی اسی سود کی ادائیگی تھی۔ لیکن بھلا ہو چوہدری صاحب کا، بیگار نہیں لیتے تھے، کام کے بدلے اکثر سو دو سو مل جاتا تھا۔ لیکن ٹھیکیدار کے تیور دیکھ کر اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ آج اجرت نہیں ملے گی۔ ابا ساری رات درد سے کراہتا رہا تھا۔ ابا کے درد سے زیادہ افسوس اسے اپنی نیند کے خراب ہونے کا تھا۔ شائد اگر ابا کا بتاؤں تو کچھ پیسے دے دے۔ دل کا برا نہیں تھا ٹھیکدار، بہت دیندار آدمی تھا۔ لیکن کیا کرے اس گرمی کے روزے میں اس کا چرچڑا ہونا فطرتاً جائز تھا۔
ابا نے بڑے ارمان سے اس کا نام مبشر رکھا تھا۔ وہ کہتا تھا یہ ہمارے لیے خوشخبری لائے گا۔ سوچا تو اس نے یہی تھا کہ اس کے پاؤں کو گیلی مٹی سے دور رکھے گا۔ لیکن اس کی ایسی قسمت کہاں تھی۔ ابا بیمار ہوا تو اس کا مسکن بھی یہی اینٹوں کا بھٹا ٹھہرا۔ پھر چوہدری صاحب نے ابا کے علاج کے لیے بیس ہزار بھی تو دیا تھا۔ بہت نیک آدمی ہیں چوہدری صاحب۔ نمازی، پرہیزگار۔ ہر سال عمرہ کرتے ہیں۔ لیکن مبشر کا خدا سے تعلق بڑا واجبی سا تھا۔ کلمہ اسے آتا تھا اور محرم کے جلوس میں بھی سب آگے وہی ہوتا تھا۔ ہر سال پیر سائیں کے مزار پر چادر بھی چڑھاتا تھا وہ۔ لیکن اس کا ابا اکثر کہتا تھا ہمارا کیا حساب ہو گا، حساب تو اس کا ہو جس کے پاس کچھ ہے۔ کبھی کبھی اسے لگتا تھا ابا کافر ہو گیا ہے۔
معاشرے کے جس طبقے سے اس کا تعلق تھا، وہاں خدا کا فقط ایک مصرف تھا، کہ اس کے نام پر روٹی مانگی جاتی۔ لیکن اب گاؤں میں نئے مولوی صاحب آئیں ہیں۔ کہتے ہیں حساب سب کا ہو گا، امیر ہو یا غریب۔ محشر کا ایسا ہیبت ناک نقشہ کھینچا انھوں نے کہ اسکے رونگھٹے کھڑے ہوگئے۔ وہ تو خدا کو کافی دحم دل سمجھتا تھا۔ لیکن محشر میں اس اینٹوں کے بھٹے سے بھی کہیں زیادہ تیز آگ کا سوچ کر اس کا دماغ ماؤف ہو رہا تھا۔
سورج ڈھلنے لگا تھا۔ اس نے سوچا کوشش کرنے میں کیا حرج ہے۔ آخر اس کا باپ بھی اسی ٹھیکدار کا مزدور رہا تھا۔ ابا کی حالت کا سن کر ٹھیکیدار کو ترس آ ہی گیا۔ سو سو کے تین بوسیدہ نوٹ اب اسکی مٹھی میں بند تھے۔ تیز تیز قدم اٹھانے کے باعث اس کا سانس پھول رہا تھا۔ عجیب اضطرابی کیفیت کا شکار تھا وہ۔۔۔ایک نیا مخمصہ۔۔۔ساری رات ابا کی کراہتیں اس کی نیند خراب کرتی تھیں، لیکن مولوی صاحب کی آگ زیادہ خوفناک تھی۔۔۔۔یہی سوچ کر اس کے قدم حکیم صاحب کے گھر کی بجائے پیر سائیں کے مزار کی طرف اٹھنے لگے۔